Post by Waiz Shah on Jun 8, 2022 18:51:33 GMT 5
ٹریفک جام
یہ ٹریفک جام کا سلسلہ کراچی میں معمول کی سی بات بن گئی ہے آئے روز کسی نہ کسی وجہ سے ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔ کبھی ٹریفک پولیس کی جان بوجھ کر کی گئی غفلت کی وجہ سے جس میں وہ بڑے بڑے کنٹینرز غلط ٹائم یعنی کمپنی اور آفس کی چھٹی کے ٹائم چھوڑ دیتے ہیں اس وجہ سے بد ترین ٹریفک جام ہو جاتا ہے۔
کبھی کسی احتجاج یا دھرنے کی وجہ سے کبھی کوئی بڑا ٹرک یا ٹرالہ یا بس کی وجہ سے، کبھی کسی ایکسیڈنٹ کی وجہ سے، کبھی روڈ پر مرمت کا کام جاری ہے اس وجہ سے، کبھی ایک روڈ بند ہونے کی وجہ سے اور سارا ٹریفک ایک ہی روڈ پر منتقل ہو جانے کی وجہ سے، کبھی کسی وی آئی پی کے آنے کی وجہ سے کبھی کسی منسٹر کی آمد کی وجہ سے، کبھی کسی پارٹی کے جلسے کی وجہ سے، کبھی کسی لڑائی جھگڑے کی وجہ سے یہ اکثر وجوہات ہیں جن کی وجہ سے ٹریفک جام ہوتا ہے۔
اس ٹریفک جام میں عوام کی بے صبری عروج پر ہوتی ہے ہر کوئی بس اسی چکر میں ہوتا ہے ساری دنیا چولہے میں جائے بس میں کسی طرح پہلے پہنچ جاؤں۔ کبھی کوئی رانگ سائڈ سے گھسا چلا آ رہا ہوتا ہے کبھی کوئی اتنا راستہ تنگ کر دیتا ہے کہ سامنے والی ٹریفک کو آنے کا راستہ ہی نہیں ملتا۔ عوام کی یہ بے صبری اور جلد بازی نہ انہیں نکلنے دیتی ہے اور نہ ہی کسی اور کو۔
اسی ٹریفک جام میں کسی گاڑی کی کسی دوسری گاڑی سے ہلکی سے ٹکر ہو جائے تو بس ایک عظیم جھگڑا اور ہنگامہ کھڑا ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پھر مزید ٹریفک جام اور مارا ماری الگ شروع ہو جاتی ہے۔ لوگوں میں انسانیت ختم ہو گئی ہے کوئی کسی کو راستہ دینا ہی نہیں چاہتا بس ہر کوئی یہی چاہتا میرا راستہ سیدھا ہو میں نکل جاؤں باقی سب جائیں بھاڑ میں۔
اوپر سے کراچی کی سڑکوں کا حال آپ کو اچھی طرح معلوم ہے۔ کھڈوں میں کہیں کہیں سڑک نظر آ جاتی ہے اور کھڈوں کے جھٹکوں کی وجہ سے اچھا بھلا صحت مند انسان مریض بن جاتا ہے کمر درد کا یا کسی ہڈی کے درد کا۔ ٹریفک جام میں آلودگی انتہا کو پہنچ جاتی ہے بندہ سارے راستے گاڑیوں کا دھواں پیتے ہوئے جاتا ہے۔
ٹریفک جام میں جہاں کوفت ہوتی ہے ارے یار کب اس مصیبت سے نکلیں گے دوسری جانب پیڑول تیزی سے جل رہا ہوتا ہے اور پیٹرول اب اتنا مہنگا ہو چکا ہے جس کی وجہ سے دل الگ جل رہا ہوتا ہے۔ راستے کی تھکاوٹ انسان کو مزید چڑچڑا کرتی چلی جاتی ہے۔
کل جب کمپنی سے چھٹی کر کے باہر نکلا تو سنگر چورنگی کے بعد تھوڑا آگے جا کر معلوم ہوا کہ شاہ فیصل کے پل کے اختتامی راستے پر احتجاجی دھرنا ہے۔ دھرنے کی وجہ لوڈ شیڈنگ بڑھتی مہنگائی پیٹرول کی ہوشربا قیمتیں تھیں۔ ہم پھر ایک بد ترین ٹریفک جام میں پھنس گئے گاڑیوں کا سمندر رینگ رینگ کر آگے بڑھتا چلا گیا لیکن بہت ساری جگہوں پر گھوم گھوم کر بالآخر مرتضٰی چورنگی کے راستے ملیر کوٹ سے تین گھنٹے میں تھک ہار کر گھر پہنچے۔
راستے میں کئی لوگوں کو ڈاکوؤں نے الگ لوٹا جس میں بہت سے لوگ ہماری کمپنی کے بھی تھے۔ اب مجھے بتائیں اس احتجاج میں ان ظالم حکمرانوں کا کیا گیا؟ وہ تو سکون سے اپنے گھروں کے ٹھنڈے اے سی میں مزے سے تھے اور یہاں روڈ پر عوام اپنا تیل جلا رہی تھی اپنے اثاثے لٹا رہی تھی راستے کی تکلیفوں کو برداشت کرتے ہوئے اپنا دل جلا رہی تھی۔ گھر وقت پر نہ پہنچنے کی وجہ سے چڑچڑاپن آسمان سے الگ باتیں کرتا ہے۔ اوپر سے اگر کوئی ایمرجنسی مریض ایمبولینس میں ہو تو یا تو وہ دم توڑ دیتا ہے یا مزید قبر کے قریب پہنچ جاتا ہے۔
ارے احتجاج کرنا غلط نہیں لیکن احتجاج کا یہ طریقہ بالکل غلط ہے جس میں عوام ہی ذلیل و رسوا ہو رہی ہے اگر دھرنا دینا ہی ہے تو ان عیاش حکمرانوں کے گھروں کے آگے دو ان کی گردن پکڑو۔ کرپٹ ترین ادارے کے الیکٹرک کے آگے دھرنا دو انہیں اور ان کے افسروں کو پکڑو۔ انقلاب عوام کو پریشان کر کے نہیں بلکہ ان کرپٹ ترین سیاست دانوں اور حکمرانوں کی گردن پکڑنے سے آئے گا۔
سب سے پہلے اللہ تعالیٰ اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کی فرمانبرداری کا انقلاب اپنے اندر پیدا کرو۔ تم آج اپنے اندر بدر کی فضاؤں کا ایمان اپنے اندر پیدا کرو فرشتے خود تمہاری مدد کو اتریں گے۔ نیک ہو جاؤ ایماندار ہو جاؤ اپنے اندر سے نافرمانی اور کرپشن کا خاتمی کرو انشاء اللہ تعالیٰ باہر بھی کرپشن ختم ہو جائے گی۔ تم اپنے اندر تو کرپشن اور اللہ تعالیٰ کی نافرمانی ختم کرنے کو تیار نہیں اور چاہتے ہو تمہارے وطن میں کرپشن ختم ہو جائے یہ کسی صورت ممکن نہیں۔
اسی لیے آئیے کوشش کریں عہد کریں کہ اللہ تعالیٰ اور آقا علیہ الصلاۃ والسلام کے فرمانبردار بندے بن جائیں۔ متقی باحیا اور نیک انسان بن جائیں میرا دعویٰ ہے اگر نظام نہ بدلے تو میری گردن مار دینا۔