Post by Waiz Shah on Jun 3, 2022 23:28:50 GMT 5
طہارت کا چوتھا درجہ
طہارتِ دل از مضمومات و محمودات طہارت کا چوتھا لیول ہے۔ یعنی آپ کے دل میں بھی کوئی برا ارادہ یا مقصد نہ ہو دل کسی شیشے کی مانند چمکتا ہوا اور ستھرا ہو۔ دل کے اندر کوئی ایسی خواہش نہ ہو جس سے کسی کو نقصان پہنچتا ہو۔ حسد جلن کینہ یہ سب دل کے برے ارادے ہیں یہ بھی بندے کے اندر نہ ہوں۔
محمودات کا مطلب کہ دل کے اندر اپنی بڑائی نہ ہو کہ میں بہت ہی اچھا نیک شخص ہوں، مجھ سا پارسا اور متقی تو کوئی بھی نہیں۔ کچھ لوگ نمازیں پڑھ کر قرآن مجید پڑھ کر خود کو بہت نیک سمجھنے لگتے ہیں اور جو لوگ نمازیں وغیرہ یا دیگر شرعی کام نہیں کر رہے ہوتے انہیں ہیچ نگاہوں سے دیکھتے ہیں ہمیں بندے کے گناہوں سے نفرت کرنی ہے نہ کہ اس بندے سے ورنہ وہ راہِ راست پر کیسے آئے گا۔
آقا علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا تم کسی شخص کا نماز روزہ مت دیکھو بلکہ اس کے لوگوں کے ساتھ معاملات دیکھو۔
تقویٰ صرف نماز روزے کا نام نہیں بلکہ رہن سہن، طرزِ معاشرت، لوگوں سے حسنِ سلوک، بات چیت کرنے کا انداز، بزرگوں کے پاس بیٹھنے کے آداب، نوکری کرنے یا کاروبار کرنے کا ڈھنگ غرضیکہ ہر چیز میں تقوی لاگو ہوتا ہے۔
ہم یہ بتا رہے تھے کہ دل کے کسی کونے میں بھی اپنی تعریف کا کوئی پہلو پوشیدہ نہ ہو۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ دعا مانگتے تھا کہ یا اللہ مجھے لوگوں کے سامنے اچھا بنائیں رکھیں اور اپنی نظروں میں حقیر بنائیں رکھیں۔
اس طرح بندے کے دل میں کبھی بھی عُجَب اور تکبر پیدا نہیں ہوگا اور نہ ہی کبھی اپنی تعریف دل میں آئے گی۔
ایک بزرگ رحمتہ اللہ علیہ نے بھری مجلس میں یہ کہہ دیا کہ میں اللہ تعالیٰ پر اتنا توکل کرتا ہوں حالات کیسے بھی آ جائیں کوئی چیز مجھے اس توکل سے ہٹا نہیں سکتی۔ اس جملے میں کہیں نہ کہیں اپنی تعریف پوشیدہ تھی یہ بات اللہ تعالیٰ کو پسند نہیں آئی پھر ہوا یہ کہ ان بزرگ کا پیشاب بند ہو گیا۔
آپ سوچ سکتے ہیں کسی کا پیشاب بند ہو جائے تو اس کی کیا حالت ہوتی ہے۔ وہ بزرگ پانی سے باہر آئی ہوئی کسی مچھلی کی طرح تڑپنے لگے اور رو رو کر اللہ تعالیٰ کے حضور گڑگڑائے اور حاجت مند ہوئے پھر ان کے دل میں الہام ہوا جاؤ فلاں مدرسے کے طلباء سے اپنے لیے دعا کرواؤ پھر تمہارا مسئلہ حل ہوگا۔
یہی ہوا وہ بزرگ مدرسے گئے اور مدرسے کے طلباء سے دعا کروائی۔ بزرگ کا درجہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہت اعلی اور مدرسے کے طلباء کم درجے والے یہ صرف اس لیے تھا کہ بڑائی صرف اللہ تعالیٰ کو زیبا ہے بہرحال ان بچوں نے دعا کی اور بزرگ کا پیشاب جاری ہو گیا۔
اکثر یہ بھی دیکھا گیا کہ کسی پیر صاحب نے اپنے مرید کی کوششوں کو دیکھتے ہوئے اسے خلعت خلافت سے سرفراز کر دیا اور وہ اسے اپنی کاوش سمجھتے ہوئے دل ہی دل میں ساتویں آسمان پر اڑتا چلا جا رہا ہوتا ہے ایسے مرید کو چاہیے کہ وہ اپنی اس کامیابی کو اللہ تعالیٰ کی جانب سے انعام سمجھے اور اپنے شیخ محترم کی مہربانی سمجھے کہ مجھ جیسے کھوٹے سکے کو قبول کر لیا ورنہ مجھ میں کونسے سرخاب کے پر لگے تھے۔
اس لیے دوستو معاملہ چاہے دین کا ہو یا دنیا کا، ترقی چاہے دین میں ملے یا دنیا میں تمام نوازشات کو اللہ تعالیٰ کی جانب منسوب کریں اور اپنے دل میں خود کو عاجز جانیں اور دوسروں کو خود سے بہتر سمجھیں اسی میں فلاح اور کامیابی ہے۔
چوتھے درجے کی طہارت بس یہی ہے کہ دل میں گناہ کا ارادہ نہ ہو اور دل میں خود کو پارسا یا افلاطون نہ سمجھیں یہی اس کی طہارت ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں بہتے آنسوؤں اور دل کے اخلاص کے ساتھ یہ دعا ہے کہ اللّہ تعالیٰ ہمیں اپنا مقرب و عاجز بندہ بنائے اور ہمیں طہارت کے تمام درجوں پر فائز فرما کر نیک و متقی انسان بنائے آمین یارب العالمین۔