Post by Waiz Shah on Jun 3, 2022 23:21:09 GMT 5
مایوس مت ہوں
مہنگائی کے بے قابو دیو نے ایک عجیب سی بے چینی اور بے یقینی کی کیفیت سے پوری قوم کو دو چار کر رکھا ہے۔ ہر کوئی مستقبل سے خوف زدہ نظر آتا ہے آگے کیا ہوگا؟ کاروبار والے کو کاروبار ڈوبتا ہوا سا محسوس ہو رہا ہے اور نوکری کرنے والے کو نوکری چھوٹ جانے کی ٹینشن ہے۔ یوٹیلیٹی بلز سے لے کر اسکول کی فیس، ٹرانسپورٹ کا کرایہ اور سودا سلف سب کچھ آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہیں اور عوام الناس اس میں چکی میں موجود آٹے کی مانند پستی چلی جا رہی ہے۔
ایسے میں ساری قوم کو امید کے دیے کی خوشیوں کی بہار کی ضرورت ہے۔ پر اس صورتحال میں امید کے کچھ ڈاکو جلتی پر پیٹرول کا کام کرتے نظر آ رہے ہیں۔ وہ لوگوں میں مزید انتشار اور خوف پھیلا رہے ہیں۔ اور کہتے پھر رہے ہیں ارے بڑی پریشانی ہے، اب کیا ہوگا؟ آگے تو لگتا ہے خانہ جنگی چھڑ جائے گی، لوگ پانی اور پیٹرول کے لیے ایک دوسرے سے دست و گریباں ہوں گے۔ ہر طرف تباہی اور بربادی کا بسیرا ہوگا۔ سیٹھ نوکری سے نکال دے گا، کاروبار ختم ہو جائیں گے کیونکہ لوگوں کی قوت خرید کم ہو جائے گی۔ ہمارا کیا ہوگا کہاں سے کمائیں گے کیسے خریدیں گے؟
الغرض یہ کہ امید کا ڈاکو آپ کی ہر امید پر ڈاکہ ڈال کر آپ کو مایوسی کے ایسے اندھیرے میں ڈبو دے گا جہاں سے نکلنا سوائے موت کے ممکن نہیں۔
آج کی یہ پوسٹ اس لیے لکھی گئی کہ آپ سب میں پھر سے ایک نئی امید کا سویرا جگا سکیں ایک نیا اجالا روشن کر سکیں۔
قرآن مجید میں یہ واضح ارشاد ہوتا ہے اللہ تعالیٰ نیکوں کے سرپرست ہیں۔
اب سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عوام اس وقت نیکی اور تقویٰ سے کوسوں دور ہے جس کا جہاں داؤ چلتا ہے وہ ڈنڈی مار دیتا ہے۔ ارکان اسلام سے کوسوں دور یعنی نماز، روزہ، حج، زکوٰۃ اور کلمہ طیبہ۔ آج کا مسلمان صرف زبانی مسلمان ہے عملی مومن نہیں۔ فرائض کو ترک کرنا اللہ تعالیٰ کی شدید نافرمانی ہے اور اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتے ہیں جو شخص میری نافرمانی کرتا ہے میں اس کی معیشت اس پر تنگ کر دیتا ہوں۔
مسئلے کی اصل جڑ یہی ہے کہ مسلمان قوم دین سے بھلائی سے اللہ تعالیٰ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور سنت سے دور اور لاپرواہ ہیں انہی اعمال کی وجہ سے شیطان قسم کے حکمران ہمارے سروں پر مسلط ہیں اور ہماری معیشت ہم پر تنگ ہے۔ اگر مسلمان نیک ہو جائیں اور نیکی کے کام کریں تو پھر یہ واضح ارشاد ہے اللہ تعالیٰ نیکوں کے سرپرست ہیں اور جب اللہ کسی کے سرپرست بن جائیں اسے کس بات کا غم ہے۔
اسی طرح کئی مرتبہ یہ یاد رکھیں زحمت کے پردے میں رحمت پوشیدہ ہوتی ہے۔ مشائخ فرماتے ہیں خوشیاں سلاتی ہیں اور غم جگاتے ہیں۔ جتنی ترقی انسان کی غم کی حالت میں ہوتی ہے خوشی کے لمحات میں ترقی اس رفتار سے نہیں ہوتی جتنی دکھ کے عالم میں پرواز کو پر لگتے ہیں۔
زحمت کے پردے میں رحمت کو اس طرح سمجھیں کہ آپ ڈیوٹی سے گھر آئے اور آپ کی بہن نے کھانا آپ کی ٹیبل پر لگا دیا۔ ایسے میں آپ کو اپنے اکلوتے بیٹے کی روتی ہوئی چلاتی ہوئی آواز آتی ہے آپ نے اپنی بہن سے پوچھا منا کیوں رو رہا ہے؟ کیا اس کی امی اس کے پاس نہیں؟ بہن نے کہا وہی تو بابو کو رلا رہی ہے۔ آپ حیران ہوتے ہیں کیا ماں اپنے جگر کے ٹکڑے کو رلاتی ہے!!! لیکن تھوڑی دیر میں آپ کی بیوی آپ کو بتاتی ہے بابو نے پوٹی کی ہوئی تھی میں اسی کی پوٹی دھلا کر صاف کر رہی تھی جس کی وجہ سے وہ رو رہا تھا۔ یہ بات سن کر آپ کو تسلی ہوتی ہے۔
بالکل اسی طرح جب بندہ گناہ کر کر کے اپنا دل میلا کر لیتا ہے اپنا من گندہ کر بیٹھتا ہے اللہ تعالیٰ جو اپنے بندے سے ستر ماؤں سے زیادہ پیار کرتے ہیں وہ کیسے یہ برداشت کرتے کہ میرا بندہ ہو کر اتنا گندہ ہو جائے پھر وہ حالات کی شکل میں کچھ مشکلات ایسی بھیجتے ہیں جن سے گزر کر بندے کا دل پاک ہوتا ہے اسے کلیننگ پراسس سمجھیں۔ جب بندے پر مشکل کی گھڑی آتی ہے وہ خوب روتا ہے خوب گریہ و زاری کرتا ہے یہ گریہ و زاری اور یہ غم میں نکلے ہوئے آنسو ہی اس کا دل صاف کر دیتے ہیں۔
ہر مشکل کے بعد آسانی ہے ہر مشکل کے ساتھ آسانی ہے یہ بھی قرآن مجید میں واضح فرمان ہے اسی لیے مشکلات سے گھبرائیں مت بلکہ اسے اپنے لیے باعثِ رحمت سمجھیں۔ اتنا یاد رکھیں جو بندہ مشکل وقت میں اپنے رب سے جڑ جاتا ہے وہ فلاح پاتا ہے اور جو بندہ مشکل میں شکوہ شکایت کرتا ہے اور اپنے رب سے دور ہو جاتا ہے یہی مشکل اس کی سزا بن جاتی ہے۔ مشکل و آزمائش پر صبر کرنا عبادت ہے اور ناشکری کرنا گناہ ہے۔
غم روحانی پرواز کی سیڑھی ہے اور خوشی غفلت کی کھائی ہے۔ متقی انسان خوش ہوتا ہے تو اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے اور جب کسی دکھ پریشانی میں آتا ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں صورتوں میں ثواب کا مستحق ٹھہرتا ہے یہی ہمارے انبیاء کی سنت اور اسلاف کا طریقہ ہے۔
ایک نیک بزرگ کی نیک بیوی نے اپنے شوہر سے پوچھا میں کافی عرصہ سے درود شریف پڑھ رہی ہوں اور بہت اخلاص کے ساتھ پڑھ رہی ہوں لیکن مجھے ابھی تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار حاصل نہیں ہوا آپ کوئی طریقہ بتائیں؟ بزرگ نے فرمایا کل جمعہ ہے تم جمعے کی دن خوب نہا دھو کر تیار ہو جانا نئے کپڑے پہن لینا خوشبو لگا کر کسی نئی نویلی دلہن کی طرح تیار ہو جانا پھر میں تمہیں بتاؤں گا آگے کیا کرنا ہے۔
بڑی بی نے بالکل ایسا ہی کیا وہ جمعے کی دن خوب سج دھج کر تیار ہو گئیں اور اپنے شوہر کا انتظار کرنے لگیں۔
ادھر وہ بزرگوار اپنی بیوی کے بھائی کے پاس پہنچ گئے اور ان کے بھائی کو کہا بہت ہی عجیب اور افسوس کی بات ہے تمہاری بہن کو عمر کے اس آخری حصے میں کیا ہوا دلہن کی طرح تیار ہو کر بیٹھی ہیں نہ جانے کیوں!!! بڑی بی کے بھائی کو بہت غصہ آیا وہ دندناتا ہوا بہن کے گھر پہنچا اور وہاں واقعی دیکھا اس کی بہن اس بڑھاپے میں جہاں منہ میں دانت نہیں اور پیٹ میں آنت نہیں کسی دوشیزہ کی طرح دلہن بنی بیٹھی ہے۔ پھر کیا بھائی نے تو ٹکا کر سنائی تمہیں شرم نہیں آتی اس عمر میں تمہارے یہ لچھن ہیں تمہیں ہو کیا گیا ہے کچھ تو حیا کی ہوتی خاندان کا نام ڈبو دیا تم نے ہم نے یہ تربیت کی تھی تمہاری!!!!
بہن کا تو رو رو رو کر برا حال ہو گیا اور اسی رونے دھونے میں وہ سو گئیں اور خواب میں آقا علیہ الصلاۃ والسلام کا پیارا دیدار ہو گیا ماشاءاللہ۔ کتنے حسین دیدار تھا وہ خاتون بہت خوش ہوئیں اور حیران بھی کہ اتنے عرصے سے درود شریف پڑھتی رہی اور یہ عظیم نعمت نہیں ملی۔
اپنے شوہر کے پاس گئیں اور کہنے لگیں مجھے آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار ہو گیا ہے الحمدللہ لیکن حیرت اس بات پر ہے کہ کل آپ نے ہی تیار ہونے کا کہا اور پھر میری بھائی سے شکایت کر کے بے عزتی بھی کروا دی اس میں کیا منطق تھی؟
بزرگ کہنے لگے دیکھو بیگم بات دراصل یہ ہے کہ میں نے ساری زندگی تمہیں بہت پیار سے رکھا ہے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہونے دی جب تم نے مجھ سے کہا آقا کریم کا دیدار کرنا ہے تو اتنا جان لو تم شاید ساری زندگی بھی لگی رہتی تو یہ نعمت حاصل نہیں کر پاتی پر اللہ تعالیٰ ٹوٹے ہوئے دلوں میں رہتے ہیں اگر اللہ تعالیٰ کو تلاش کرنا ہو تو ٹوٹے ہوئے دلوں میں ڈھونڈو بس اسی بات پر میں نے حیلہ کیا اور جان بوجھ کر تمہارا دل توڑا دیکھ لو تمہیں دیدار عظیم ہو گیا۔
پیارے دوستو بہت کچھ لکھنا تھا لیکن میں مزید آپ کو مشقت میں نہیں ڈالوں گا۔ بہت سے تو سی مور پر بھی کلک نہیں کرتے بس تیزی سے اسکرول ڈاؤن کر کے فاسٹ فارورڈ کر کے آگے بڑھ جاتے ہیں اور زبردستی کا لائک اور لو کا بٹن دبا جاتے ہیں بنا پڑھے ہی۔ خیر مومن تو حسنِ ظن رکھتا ہے میرا ماننا یہی ہے کہ پوسٹ پڑھ کر کچھ نہ کچھ اپنی قیمتی رائے کا اظہار کریں اور خوشحالی میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور پریشانی میں صبر کا دامن تھامیں رکھیں۔ بڑھتی مہنگائی سے پریشان نہ ہوں بلکہ تقوی اختیار کر کے اپنی ہر چاہت کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دیں اپنا ہر معاملہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں پیش کریں انشاء اللہ تعالیٰ آپ کے رزق میں برکتیں اور فراوانی رہے گی۔ خاص طور پر اپنے کمزوروں کی مدد کریں کیونکہ انہی کمزور لوگوں کی وجہ سے ہمارے رزق میں اضافت ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ کی بارگاہِ بے کس پناہ میں دل کی گہرائیوں سے یہ دعا ہے کہ اللّہ تعالیٰ ہماری تمام مشکلات کو آسان فرمائے اور ہمارے ملک پر نیک حکمران مسلط فرمائے ہمیں نیک بننے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمارے دلوں میں امید کا دیپک جلائے رکھے آمین یارب العالمین۔