Post by Waiz Shah on May 17, 2022 14:25:12 GMT 5
*طہارت*
اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیۡنَ وَ یُحِبُّ الۡمُتَطَہِّرِیۡنَ ﴿۲۲۲﴾
ترجمہ:
بے شک اللہ تعالیٰ توبہ کرنے والوں سے محبت فرماتے ہیں اور پاک رہنے والوں سے محبت فرماتے ہیں۔
( سورۃ البقرہ آیت نمبر 222)
فی زمانہ دیکھیں تو لوگ پریشان ہیں اور ان کے رزق میں برکتیں ختم ہو گئی ہیں۔ عبادات میں لذت نہیں ملتی پہلی بات تو یہ کہ عبادت سے ہیں ہی کوسوں دور ہیں اور اگر نماز، روزہ، اور دیگر عبادات کر بھی رہے ہیں تو ان میں حضوری، دلی کیفیت اور خشوع حاصل نہیں ہوتا۔
جس طرح ظلمت اور نور ایک جگہ جمع نہیں ہو سکتے یعنی جہاں اجالا ہوگا وہاں اندھیرا ممکن نہیں۔ اسی طرح جہاں ناپاکی ہو گی وہاں پاکی جنم نہیں لے سکتی۔ اسے یوں سمجھیں کسی دودھ کے گلاس میں چھپکلی گر جائے تو کیا وہ دودھ پینے کے قابل رہا!!! ہرگز نہیں۔ جو چیز صاف نظر آ رہی ہے ضروری نہیں وہ پاک بھی ہو۔ اسی طرح جو چیز میلی نظر آ رہی ہے ضروری نہیں وہ ناپاک بھی ہو۔
آج کل طہارت کا معاملہ انتہائی ڈھیلا ہے لوگ اس کی طرف دھیان ہی نہیں دیتے۔ گھروں کا حال عجب ہے کچن میں برتن گندے پڑے رہتے ہیں باتھ روم میں صفائی نہیں کرتے بستر گندے پڑے رہتے ہیں اسی بے ترتیبی اور صفائی ستھرائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے تنگی رزق کا شکار رہتے ہیں۔
اوپر سے نہ ہی خود طہارت کے مسائل سیکھتے ہیں نہ ہی بچوں کی تربیت کرتے ہیں۔
ناپاکی منتقل ہونے کے دو راستے ہیں اگر ناپاکی مائع شکل میں ہوگی اور کسی خشک چیز پر پڑ جائے ناپاکی منتقل ہو گئی اور اگر کوئی جگہ ناپاک ہے لیکن خشک ہو چکی ہے اور اس پر کوئی گیلا پاؤں یا گیلی شے پڑ جائے تو وہ چیز یا پاؤں ناپاک ہو جاتا ہے۔ چھوٹے بچے باتھ روم سے آتے ہیں پتہ نہیں صحیح سے استنجہ کیا یا نہیں اور وہی گیلے پاؤں لے کر قالین اور یا جائے نماز پر چڑھ جاتے ہیں۔
یا کسی بچے نے فرش پر پیشاب کر دیا اور وہ جگہ سوکھ گئی اور کوئی گھر کا بڑا وضو کر کے آیا اور وہی گیلے پاؤں لے کر اس فرش پر چڑھ گیا ناپاکی منتقل ہو گئی۔
کوئی جگہ خشک ہے لیکن وہ کھلی ہے اور وہاں دھوپ شدت کے ساتھ پڑتی ہے وہ جگہ پاک ہو جاتی ہے۔
کیا آپ یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ آپ نے خود طہارت کے مسائل کسی عالم سے یا شیخ محترم سے سیکھے ہیں؟ کیا کوئی باپ یہ کہہ سکتا ہے کہ اس نے اپنے بچوں کو غسل کے فرائض، استنجہ کا طریقہ، وضو کا طریقہ بتایا یا سکھایا ہو؟
عورتیں بھی ان معاملات میں بہت سستی کا شکار ہیں۔ ان کے گھر کے مرد انہیں کچھ سکھاتے نہیں اور کچھ عورتیں انہیں شرم کی باتیں سمجھ کر مسائل پوچھتی ہیں نہیں۔ نیل پالش لگی ہو تو نہ وضو ہوگا نہ غسل اسی طرح سر کے بالوں کا کوئی حصہ خشک رہ گیا یا ناک کی کیل کے سوراخ میں اور کان کی بالیوں کی سوراخ میں اچھی طرح پانی بہایا کہ نہیں اگر ذرا سا بھی خشک رہ گیا غسل ہی نہیں ہوا۔
جب غسل ہی درست نہیں ہوگا، وضو ہی درست نہیں ہوگا تو کیا نماز قبول ہو گی کیا عبادت میں لذت آئے گی کیا گھر میں رزق میں برکتیں پیدا ہوں گی اس کا جواب ناں ہی ہے۔
زہر چاہے جان بوجھ کر پیے یا انجانے میں زہر نے اپنا اثر دکھانا ہے کوئی یہ نہیں کہہ سکتا میں نے انجانے میں زہر پیا تھا مجھ پر اثر کیسے ہو گیا بالکل اسی طرح ناپاکی انجانے میں لگ جائے یا جانتے بوجھتے اس نے روحانیت پر اور رزق پر گہرا اثر ڈالنا ہے۔
کچھ دنوں پہلے برسی پر قریبی رشتے دار کے گھر جانا ہوا۔ وہ لوگ اکثر رزق کی تنگی کا شکار رہتے ہیں یا کسی گھریلو مسائل ناچاقی میں پھنسے رہتے ہیں۔ کافی عرصے بعد جب برسی میں وہاں جانا ہوا تو وجہ سمجھ آ گئی کہ کیوں اس گھر میں برکت نہیں ہے۔ جب ان کے گھر میں گھسا تو پیشاب کی اور چوہوں کے گند کی ایسی شدید بدبو ناک کے نتھنوں سے ٹکرائی کے دماغ تک چکرا گیا میں فوراً ہی باہر آ گیا۔ جہاں ناپاکی اور گندگی کا اور سڑاند جیسی بدبو کا بسیرا ہوگا وہاں نور اور اجالا کیسے پھیلے گا۔ انہیں چاہیے فی الفور اس پر ایکشن لیں اور ایک گرانڈ کلیننگ آپریشن کر کے پورے گھر کو پانی اور خوشبو سے غسل دیں اس طرح ان کا مسائل میں کمی ممکن ہوگی۔
صوفیاء کرام نے طہارت کے چار مراتب چار منزلیں یا چار درجے بیان کیے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر ہم متقی پرہیز گار اور نیک انسان بن سکتے ہیں آگے آنے والی پوسٹ میں ہر درجے کا الگ الگ ذکر کیا جائے گا۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ اللّہ تعالیٰ ہمیں کامل طہارت عطا فرمائے آمین یارب العالمین۔