Post by Kazmi on Apr 23, 2022 1:08:46 GMT 5
کمپیوٹر سے پیدا کی گئی نقلیں فنکاروں کے لیے ایک بڑا خطرہ: یونین کا احتجاج
کرِس ویلینس : بی بی سی ٹیکنالوجی رپورٹر
فنکاروں کی ایک یونین نے خبردار کیا ہے کہ جب تک قانون میں تبدیلی نہیں آتی، اداکاروں کا روزگار مصنوعی ذہانت (AI) کی وجہ سے خطرے میں ہے۔ یونین 'ایکویٹی' کا کہنا ہے کہ کمپیوٹر سے پیدا کی گئی نقلیں ان فنکاروں کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ ہیں۔
'ایکویٹی' جو کہ فنکاروں کے حقوق کے لیے 'پرفارمنگ آرٹس ورکرز یونین' کے نام سے ایک تنظیم ہے، جس نے مصنعی ذہانت (آرٹیفیشل انٹیلیجینس) سے پہنچنے والے ممکنہ مالی نقصانات کے خلاف ایک نئی مہم شروع کی ہے،'سٹاپ اے آئی اسٹیلنگ دی شو۔' مصنوعی ذہانت کسی اداکار کی آواز یا چہرے کے نمونے استعمال کر سکتا ہے جس میں 'ڈیپ فیکس' بھی شامل ہے۔
ایکویٹی یونین کا کہنا ہے کہ 'خودکار آڈیو بکس سے لے کر ڈیجیٹل اوتار تک، مصنوعی ذہانت (AI) کے سسٹمز اب ہنر مند پیشہ ور اداکاروں کی جگہ لے رہے ہیں۔' یونین نے خبردار کیا ہے کہ مصنوعی ذہانت کے اس طرح کے 'ڈسٹوپیئن' مداخلت کے نتائج بہت خراب ہوں گے جب تک کہ ان پر کاپی رائٹ کے قانون کا اطلاق نہ ہو۔ ایکویٹی نے کئی ایک مختلف طریقوں کی نشاندہی کی ہے جن سے فنکاروں، اداکاروں کی آوازیں یا مشابہتیں استعمال کی جا سکتی ہیں۔
مثال کے طور پر اداکارمصنوعی انٹیلیجینس کا استعمال کرنے والی فرموں کے ساتھ مل کر ایسے سسٹم بنانے کے لیے کام کر سکتے ہیں جو مصنوعی وائس اوور (کسی دوسری ایک منظر یا آواز پر کسی اور کی آواز استعمال کرنا) تیار کر سکیں یا ڈیجیٹل 'اوتار' بنانے میں ان کی مدد کریں۔ اورمصنوعی ذہانت (AI) کا استعمال کرتے ہوئے 'مصنوعی' پرفارمنس تخلیق کی جا سکتی ہے، یہاں تک کہ بعض صورتوں میں فوت شدہ اداکاروں کو بھی کسی نئی فلم میں دوبارہ دکھایا جا سکتا ہے۔
اگرچہ مصنوعی ذہانت (AI) سے تیار کردہ پرفارمنس ایک کارآمد تخلیقی ٹول ہو سکتی ہے، لیکن یونین کو تشویش ہے کہ اداکار اپنی مشابہت کے بار بار استعمال پر ہمیشہ کے لیے قابو نہیں پا سکتے اور نہ ہی وہ اپنی مشابہت کو اُن کی رضامندی کے بغیر یا مناسب معاوضے کے بغیر اُس کے استعمال کو روک سکتے ہیں۔
مصنوعی ذہانت (AI) سے تیار کی گئی مشہور شخصیات کی 'ڈیپ فیک' ویڈیوز آن لائن پر تیزی سے مقبول ہو رہی ہیں۔
اس مہم کی حمایت کرنے والی اداکارہ تلُولا رائیلی نے یونین کو بتایا کہ 'ایک اداکار کے طور پر یہ ضروری ہے کہ میری آواز اور میری تصویر میری اپنی ہو، چاہے ان چیزوں کو کتنی ہی آسانی سے اور سستے طریقے سے ڈیجیٹل طور پر نقل کیا جا سکتا ہے۔ میرا ماننا ہے کہ اداکاروں کی آوازوں یا ان کی مشابہتوں، وہ مواد جو ہم بناتے ہیں ، کے استعمال پر ان کو مناسب معاوضہ دیا جانا چاہیے۔'
آڈیو کے لیے خطرہ
جہاں اداکارمصنوعی ذہانت (AI) کی کمپنیوں کے ساتھ کام کرتے ہیں، وہاں ان میں سے زیادہ تر کو اپنے حقوق کا علم نہیں ہے۔ یونین کا کہنا ہے کہ بہت سے لوگوں کو 'غیر افشاء' کرنے والے معاہدوں پر دستخط کرنے کی ضرورت ہے۔
یونین کو 430 اراکین کے سروے سے معلوم ہوا ہے کہ 93 فیصد آڈیو فنکاروں نے محسوس کیا کہ مصنوعی ذہانت (AI) اِن کے روزگار کے مواقع کے لیے ایک بڑا خطرہ ہے۔
سروے کے ایک جواب دہندہ نے یونین کو بتایا کہ 'پچھلے چھ مہینوں میں عالمی کمپنیوں کی جانب سے مارکیٹنگ کی بڑی مہموں میں میری آواز کا استعمال کیا گیا ہے۔ مجھے ایک پیسہ بھی نہیں ملا حالانکہ مجھے یقین ہے کہ میرا معاہدہ تیسرے فریق کی تشہیر کی اجازت نہیں دیتا ہے۔'
تلُولا رائیلی کو اس بات کی تشویش ہے کہ کتنی آسانی کے ساتھ اس کی شبیہ اور اس کی آواز کی نقلیں تیار کی جاتی ہیں۔
ایکویٹی نے کہا کہ 'انسانی آوازوں کو کلون کرنے کے لیےمصنوعی ذہانت (AI) کی بڑھتی ہوئی صلاحیت اصل آواز والے انسانی فنکار کے لیے ایک بڑا بنتی ہے کیونکہ آواز کے اصل مالک کو یا تو کم معاوضہ دیا جا رہا ہے یا اسے کوئی بھی معاوضہ نہیں ملتا ہے۔‘ یونین کہتی ہے کہ وہ خاص طور پر خودکار آڈیو بک تخلیق کے لیے ڈیجیٹل وائس ٹیکنالوجی کی ترقی کے بارے میں فکر مند ہے۔ ایکویٹی یونین کی اس مہم کی بیو سٹنڈنگ حمایت کرتی ہیں، انھوں نے اپنی آواز کے غیر قانونی استعمال پر ٹک ٹاک پر مقدمہ دائر کیا ہوا۔
کینیڈا کے وائس اوور آرٹسٹ نے سنہ 2018 میں ترجمہ میں استعمال کرنے کے لیے سرکاری حمایت یافتہ چینی انسٹی ٹیوٹ آف آکوسٹک ریسرچ باڈی کے لیے آڈیو کے تقریباً 10,000 جملوں کو ریکارڈ کیا تھا۔
بیو اسٹینڈنگ نے الزام لگایا کہ لیکن اس کی آواز بعد میں ٹِک ٹاک نے ایک فیچر میں استعمال کی جس نے تحریر کو تقریر میں تبدیل کر دیا، جسے پھر ایپ پر اپ لوڈ کردہ اکثر مزاحیہ اثر کے لیے ویڈیوز پر چلایا جا سکتا ہے۔ مِس اسٹینڈنگ نے دعویٰ کیا اس غیر قانونی استعمال میں وہ ویڈیوز بھی شامل ہیں جن میں خلافِ قانون ان کی آواز استعمال کی گئی ہے۔ تاہم ٹک ٹاک نے بیو سٹنڈنگ کے ساتھ اس مقدمے کو نمٹا دیا ہے۔ بیو اسٹینڈنگ نے ایکویٹی کو بتایا کہ 'میں اب صرف ان کمپنیوں کے ساتھ کام کرتی ہوں جہاں میرا یہ کنٹرول ہوتا ہے کہ میری آواز کو استعمال کرنے والے مجھ سے اجازت لیتے ہیں اور مجھے اس کا معاوضہ ملتا ہے۔'
حکومتی کارروائی
یونین کا استدلال ہے کہ کاپی رائٹ کا موجودہ قانون اداکاروں کو خاطر خواہ تحفظ نہیں دیتا، کیونکہ 'مصنوعی ذہانت (AI) ریکارڈنگ یا کاپی بنائے بغیر فنکاروں کی پرفارمنس کو دوبارہ پیش کرتا ہے۔' ایکویٹی چاہتی ہے کہ حکومت اداکاروں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کارروائی کرے اور 'تکنیکی ترقی کے ساتھ رفتار کو برقرار رکھنے' کے لیے کاپی رائٹ قوانین میں اصلاحات کرے۔ تاہم یہ خدشات بھی ہو سکتے ہیں کہ کاپی رائٹ قانون میں تبدیلیاں آزادئِ تقریر کے حق پر منفی اثر ڈال سکتی ہیں یا اختراع پر پابندی لگ سکتی ہے۔
حکومت نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کو اس طریقے سے ریگولیٹ کیا جائے جس سے 'لوگوں اور ہماری بنیادی اقدار کی حفاظت کرتے ہوئے' تخلیق و اختراع کی حوصلہ افزائی ہو۔ ایک حکومتی بیان میں کہا گیا ہے کہ 'ہماری قومی مصنوعی ذہانت (AI) حکمت عملی میں ٹیکنالوجی کے مواقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے دس سالہ وِیژن موجود ہے اور ہم اس پر عملدرآمد کے لیے مناسب وقت پر اپنا نقطہ نظر طے کریں گے۔'