Post by Kazmi on Apr 8, 2022 3:36:30 GMT 5
’ٹِک ٹاکس‘: اکاؤنٹ کے لیے عمر کی شرط 13 برس سے زیادہ لیکن ’پانچ برس کے بچے بھی سوشل میڈیا پر‘
ایک تازہ ترین رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پانچ برس کے بچے بھی سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں جبکہ زیادہ تر پلیٹ فارمز پر کم از کم عمر کی شرط 13 برس سے زیادہ ہے۔ برطانیہ میں کمیونیکیشن کے نگران ادارے آفکام کی سالانہ رپوٹ میں سامنے آیا ہے کہ پانچ سے سات برس کی عمر کے بچوں کے والدین کی ایک تہائی نے انکشاف کیا کہ ان کے بچوں کے سوشل میڈیا اکاونٹ ہیں۔ ادارے کے مطابق آٹھ سے گیارہ برس کی عمر کے وہ بچے جو سوشل میڈیا استعمال کر رہے ہیں ان میں ٹک ٹاک سب سے مقبول پلیٹ فارم ہے اور ہر تین میں سے ایک بچے کا اس پر اکاؤنٹ ہے۔ یاد رہے کہ ٹک ٹاک پر اکاؤنٹ بنانے کے لیے عمر 13 برس سے زیادہ ہونی ضروری ہے۔
ٹک ٹاک کمپنی کے ایک ترجمان نے کہا ’ہمارے پاس اکاونٹ بنانے سے اسے چلانے تک کم سے کم عمر کی شرط کو نافذ کرنے کا طریقہ کار موجود ہے اور ہم باقاعدگی سے مشتبہ اکاونٹ ختم کرتے رہتے ہیں۔‘ انھوں نے کہا کہ ’ہمارے لیے اپنی کمیونٹی، خاص کر کہ کم عمر افراد کے تحفظ سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں۔‘
آفکام کی جانب سے ٹک ٹاک استعمال کرنے والے بچوں کے لیے ’ٹِک ٹاٹس‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اس پلیٹ فارم پر ویڈیوز دیکھنے والے کم عمر بچوں میں 16 فیصد ایسے ہیں جن کی عمریں تین اور چار سال کے درمیان ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر بچے کا اپنا اکاونٹ ہے بلکہ ہو سکتا ہے کہ ان بچوں کے والدین یا کوئی بالغ شخص انھیں یہ ویڈیوز دکھا رہا ہو۔ آفکام نے خبردار کیا ہے کہ بعض بچے سوشل میڈیا پر اپنی مصروفیات کو والدین سے خفیہ رکھ رہے ہیں۔
چونکا دینے والی رپورٹ
نگراں ادارے کے ریسرچ ڈائریکٹر یی چنگ نے کہا کہ رپورٹ کے نتائج حیران کن ہیں۔ ’میرا اپنا ایک گیارہ سال اور ایک آٹھ سال کا بچہ ہے اور ان کے 60 فیصد ساتھیوں کے سوشل میڈیا اکاونٹس موجود ہیں جو میرے لیے حیران کن بات ہے۔‘ ’بڑی ٹیکنالوجی کمپنیاں اپنے صارفین کے لیے قواعد و ضوابط میں کم سے کم عمر کی حد تو رکھتے ہیں لیکن ایسا لگتا ہے کہ اسے نافذ نہیں کیا جا رہا۔ یی چنگ نے کہا کہ والدین کو بھی علم ہونا چاہیے کہ ان کے بچے آن لائن کیا دیکھ رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’عام طور پر یہ جاننا آسان نہیں کہ بچے کیا دیکھ رہے ہیں لیکن بطور والدین ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم بچوں کی مصروفیات کے بارے میں ان سے بات چیت کریں۔‘
آفکام رپورٹ کے مطابق تین سے چار سال کی عمر کے بچوں کے 22 فیصد اور آٹھ سے گیارہ سال کی عمر کے بچوں کے 38 فیصد والدین نے کہا کہ وہ اپنے بچوں کو سوشل میڈیا پر اکاونٹ کھولنے کی مقررہ عمر سے پہلے انھیں سوشل میڈیا اکاونٹ بنانے کی اجازت دیں گے۔
مخفی اکاونٹ
بعض بچے دوسروں کے اکاونٹ یا جعلی انسٹاگرام اکاونٹ کا استمعال کر کے اپنی آن لائن مصروفیات کو والدین سے چھپاتے ہیں۔ انسٹاگرام 13 سال سے زیادہ عمر کے افراد کے لیے پلیٹ فارم ہے جس پر والدین کو کئی کنٹرول دیے گئے ہیں۔ آفکام کے سروے کے مطابق کئی بچے ایک ہی سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر ایک سے زیادہ اکاونٹ بناتے ہیں۔ سروے کے مطابق آٹھ سے گیارہ سال کی عمر کے بچوں میں تین میں سے دو یعنی 66 فیصد بچوں کے کئی سوشل میڈیا اکاونٹس ہیں۔ ان میں سے 46 فیصد کے پاس ایک ایسا اکاونٹ ہے جو وہ اپنے خاندان کو دکھا سکتے ہیں۔ آفکام کے سروے میں سامنے آیا کہ 12 سے 17 برس کے بچوں میں پانچ میں سے ایک نے اپنی شناخت چھپا کر انٹرنیٹ پر سرفنگ کی اور انھوں نے دیکھی گئی ویڈیو کی ہسٹری کو بھی ڈیلیٹ کر دیا۔
ڈیجیٹل باشندے
حال ہی میں شائع ہونے والے آن لائن سیفٹی بل کے مطابق تمام ایسے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز جو پونوگرافی دیکھاتے ہیں، ان پر لازم ہے کہ وہ بچوں تک نامناسب مواد کی رسائی کو روکیں۔ آفکام سروے کے مطابق بچوں کی ایک بڑی تعداد پہلے ہی ایسی روکاوٹوں کی موجودگی میں مطلوبہ مواد تک رسائی حاصل کرنے کے طریقوں سے واقف ہیں۔ آفکام کے مطابق ہر 20 میں سے ایک بچہ والدین کے کنٹرولز کو ناکام بنا کر مخصوص اپیس تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ مسٹر یی چنگ نے کہا کہ ڈیجٹل دور میں پیدا ہونے والے کئی بچوں کی ٹیکنالوجی کے بارے میں آگاہی اپنے والدین سے زیادہ ہے۔ ’لیکن سب سے اہم بات یہ ہے کہ بطور والدین ہمیں آن لان ماحول کے بارے اور ایسے ٹولز کے بارےمیں آگاہی ہونی چاہیے جس کے ذریعے وہ بچوں پر نظر رکھ سکیں۔ اس کے علاوہ ہمیں اپنے بچوں سے بات چیت کرتے رہنا چاہیے کہ وہ کیا کر رہے ہیں۔‘
آفکام کے سروے میں بچوں کی آن لائن مصروفیات کے کچھ فواہد بھی سامنے آئے ہیں۔ 13 سے 17 برس کی عمر کے بچوں میں سے 53 فیصد نے آفکام سروے کو بتایا کہ آن لائن مصروفیات ان کی ذہنی صحت کے لیے مفید ہیں جبکہ 17 فیصد اس سے متفق نہیں تھے۔ اس سروے میں سامنے آیا کہ 70 فیصد بالغ افراد نے کہا کہ وہ غلط معلومات کو جانچ سکتے ہیں لیکن جب انھیں ٹیسٹ کیا گیا تو ان میں صرف بیس فیصد ہی غلط معلومات کو پہچان سکے جبکہ 12 سے 17 سال کی عمر کے بچوں میں سے 75 فیصد نے غلط معلومات کی نشاندہی کر لی۔
تجزیہ: مائیک وینڈلنگ، بی بی سی ٹرینڈنگ
ریگولیٹر آفکام کے سروے میں سب سے حیران کن بات یہ سامنے آئی کہ تین میں سے دو افراد آن لائن جو چیز دیکھتے ہیں اس کے حقیقی ہونے کے بارے میں ان کے خدشات ہوتے ہیں لیکن یہاں ایک مسئلہ ہے۔ اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ غلط معلومات کو بھانپ لیتے ہیں لیکن حقیقت میں چار میں سے صرف ایک شخص ہی جعلی سوشل میڈیا اکاؤنٹ کو پہچان سکتے ہیں لیکن عام لوگوں کی طرح زیادہ وقت آن لائن گزارنے والے سوشل میڈیا صارفین بھی جعلی اکاونٹ یا مواد کو پہچاننے میں اتنے ہی ناکام رہے ہیں۔ بارہ سے سترہ سال کی عمر کے نوجوانوں میں دس میں سے صرف ایک اصلی پوسٹ کی نشانیوں کو بیان کر سکا۔
یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ برطانیہ کا شمار ایسے ممالک میں ہوتا ہے جو ٹیکنالوجی کو استعمال کرنے میں مہارت رکھتے ہیں لیکن ذرائع ابلاغ کو سمجھنے کے حوالے سے ابھی کام کیا جانا باقی ہے۔ آن لائن سیفٹی بل کے تحت ٹیکنالوجی کی بڑی کمپنیوں کو نقصان دہ غلط معلومات کو اپنے پیلٹ فارمز سے ہٹانا ہے اور آفکام کی طاقت کو بڑھانا لازم ہے لیکن یہ معاملہ کافی پیچیدہ ہے۔ کووڈ کی وبا سے لے یوکرین کی لڑائی تک آن لائن گمراہ کن معلومات کی بھرمار ہے۔ لہذا کوئی بھی اس دھوکے میں نہ رہے کہ قانون سازی کے ذریعے مسئلے کو حل کیا جا سکتا ہے۔