Post by Waiz Shah on Mar 18, 2022 14:23:11 GMT 5
* دیدِ قصور *
مشائخ عظام فرماتے ہیں اللہ تعالیٰ جس بندے سے راضی ہوتے ہیں خوش ہوتے ہیں اس کے عیب اس پر واضح فرما دیتے ہیں جس کی وجہ سے اس کی اصلاح کا راستہ اس بندے پر کھل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس بندے سے ناراض ہوتے ہیں اس کے عیب اس سے پوشیدہ فرما دیتے ہیں۔
یہاں ہمیں ایک کلیہ معلوم چل گیا کہ جس بندے کو اپنے عیب نظر آ رہے ہیں اور وہ اس کی اصلاح کی کوششوں میں لگا ہوا ہے وہ سیدھے راستے پر ہے اور جو شخص اپنے عیبوں کو عیب ہی نہیں سمجھتا وہ یہ جان لے کہ اللہ تعالیٰ اس سے خفا ہیں۔
شیطان اس بندے کے اعمال اس طرح مزین کر کے پیش کرتا ہے کہ اسے اپنا تانبا بھی سونا نظر آتا ہے اسے اپنا کھوٹا بھی کھرا نظر آتا ہے اسے اپنے گناہ بھی ثواب نظر آتے ہیں۔ خود اپنے ہی عقیدت مند بن جاتے ہیں یعنی خود اپنے ہی مرید بن جاتے ہیں۔
آج دیکھیں تو انسان کی گردن اکڑی رہتی ہے آنکھیں ابل ابل کر باہر آتی ہیں اور وہ دوسروں کے عیب ڈھونڈنے میں لگا رہتا ہے۔ اے کاش یہ گردن جھک جاتی اور یہ نگاہ اپنے سینے پر پڑتی تو وہ جان لیتا اس کے اپنے اندر کتنے عیب ہیں۔
میری کمپنی میں ایک انجنئیر صاحب ہیں جن کی زندگی گناہوں سے آلودہ ہے، بات بات پر گالی وہ اس طرح بکتے ہیں جیسے بہت ہی نیک کلمات منہ سے نکال رہے ہوں، بد نگاہی بد نظری ان کے لئے معمولی سی بات ہے، جھوٹ ان کی زبان پر دھرا رہتا ہے، نماز سے کوسوں دور، روزہ بھی نہین رکھتے غرضیکہ ایک فاسقانہ سی زندگی ہے ان کی، ایک بار ان سے اللہ تعالیٰ سے توبہ استغفار کی فضیلت پر بات کی انہوں نے بہت غور سے سنی اور سننے کے بعد کہنے لگے آپ نے بڑی اچھی بات بیان کی دل میں اتر گئی بس کہنا یہ چاہتا ہوں اپنے ارادے سے تو گناہ کبھی نہیں کیا۔
ان کی یہ بات سن کر تو پیروں تلے زمین کی نکل گئی انسان اتنا بھی اندھا ہو جاتا ہے کہ اسے نماز نہ پڑھنا، روزے نہ رکھنا، بد نگاہی، بد نظری، جھوٹ، گالی گلوچ گناہ لگتا ہی نہیں اور آگے سے کہتے ہیں اپنے ارادے سے تو کبھی گناہ کیا ہی نہیں۔
ایک چور کا بیٹا اپنے ابا کی چوری کے قصے اپنے دوستوں کو بڑے فخر سے سنا رہا تھا کہنا لگا ایک بار میرے ابا ایک گھر میں چوری کرنے گئے اور جیسے ہی میرے بہشتی ابا نے دروازہ کھولا سامنے ایک بدمعاش کھڑا تہجد پڑھ رہا تھا۔ دیکھا آپ نے آنکھوں پر کیسی پٹی بندھی گئی یعنی اس کے چور ابا جنتی اور تہجد پڑھنے والا بدمعاش!!!!
جب تک انسان کو اپنے اندر عیب نظر نہیں آتے اسے توبہ کی بھی توفیق نہیں ملتی اسی وجہ سے وہ گناہوں کے دلدل میں مزید غرق ہوتا چلا جاتا ہے۔
آج کل جسے دیکھو کمال کی تنقید کرتا نظر آتا ہے، یہ نہ کرو وہ نہ کرو یہ ایسا وہ ویسا، یعنی خود کو بہت بڑا افلاطون سمجھتے ہیں اور سامنے والے کو جاہل، مصلح بننا بہت آسان ہے اور صالح بننا بڑا مشکل دوسروں کے کانوں کو اپنی بات سناتے ہیں لیکن جو سب سے زیادہ قریب ہیں یعنی اپنے کان وہ ہی نہیں سنتے۔ جب اپنی کہی گئی بات خود اپنے کان نہیں سنتے تو دور بیٹھے کان کہاں سے سنیں گے!!!!
اس میں لوگوں کا قصور نہیں اپنا قصور ہے اپنی کہی ہوئی اچھی بات پر خود اپنا عمل ندارد تو دوسرا کہاں سے سنے گا اسی لیے ہمارے اسلاف پہلے خود عمل کرتے تھے پھر دوسروں کو تلقین فرماتے تھے۔
ایک بار امام ابو حنیفہ رحمتہ اللہ علیہ کے پاس ایک عورت اپنا بچہ لے کر آئی اور کہنے لگی حضرت میرے بچہ گڑ بہت کھاتا ہے جو اسے نقصان دیتا ہے آپ اسے منع فرما دیں۔ امام صاحب نے کہا کل آنا، پھر جب وہ عورت اگلے دن آئی تو امام صاحب نے کہا بچے گڑ نہ کھایا کرو۔ عورت حیران ہوئی اور کہنے لگی امام صاحب یہ بات تو آپ کل بھی کہہ سکتے تھے اس میں ایک دن کیوں لگا دیا؟ امام صاحب کہنے لگے میں نے کل خود گڑ کھایا ہوا تھا کس طرح بچے کو کہتا اسی لئے پہلے میں نے خود چھوڑا اب بچے کو تلقین کر رہا ہوں۔
اپنی بات پر یا اچھی بات پر جب ہم خود عمل کریں گے اور پھر دوسروں کو کہیں گے تو ہی اس کا اثر لوگوں پر ہوگا لہذا پہلے خود کی اصلاح کریں اس کے بعد مصلح بنیں۔
اپنے عیب جاننا اپنے عیبوں پر نظر رکھنا اولیاء اللہ کی صفت ہے اور دوسروں کی ٹوہ میں رہنا ان کے عیب نکالنا یا ان میں عیب ڈھونڈنا فساق کی عادت ہے۔
امام ربانی مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ نے اپنی مکتوبات میں دیدِ قصور ایک ٹرم ترتیب دی جس پر عمل پیرا ہو کر ہم اپنے عیب جان لیں گے اور ان کی اصلاح بھی ہو جائے گی۔
1- شیخ کامل کی صحبت میں رہنا ان کی نظروں میں رہنا
2- نیک اور صالح دوست بنانا اور انہیں کہہ دینا کہ جب بھی آپ مجھ میں غلطی دیکھیں مجھے بتا دیا کریں
3- اپنے حاسدین اور دشمنوں کے تبصروں سے اپنی اصلاح کا پہلو ڈھونڈنا
4- دوسروں کی غلطیوں سے عبرت پکڑنا اور اپنا محاسبہ کرنا
یہ وہ چار طریقے ہیں جن کی مدد سے ہمارت عیب ہم پر آشکار ہو جائیں گے اور ہمیں اپنی اصلاح کا موقع مل جائے گا۔ آگے آنے والی پوسٹوں میں ان پوائنٹس پر تفصیلی تشریح پیش کی جائے گی لہذا جڑے رہیے اور اپنی اصلاح کی خاطر اپنی قبولیت والی آنکھوں سے پڑھ کر ان باتوں کو دل میں اتار لیجئے۔
شکریہ
جاری ہے۔۔۔۔۔۔