جواب
بیشک اللہ رب العزت ہر جگہ موجود ہے، یہی کہا جاتا ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں، لیکن اس کا مفہوم جسم اور جسمانیت کا شائبہ بھی نہیں رکھتا کیونکہ کائناتوں کا پروردگار کائناتوں سے بڑا ہے۔ اللہ اکبر! وہ کسی جگہ میں نہیں سما سکتا۔ ؎
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پا سکے
یہ میرا ہی دل ہے کہ جہاں تو سما سکے
یہ ضرور یاد رکھیں کہ رب تعالٰی کا نام شہید ہے، حاضر نہیں کیونکہ رب کی ذات جسمانی یا مکانی حضور سے پاک ہے اور اس کا علم و قدرت و رحمت ہر جگہ موجود ہے۔ حضور و شہود میں بڑا فرق ہے رب کی ذات ہر جگہ میں نہیں کہ مکان سے پاک و منزہ ہے۔
حضرتِ سیِّدُنا زید بن جبیرؒ فرماتے ہیں: حضرت ابو بختریؒ نے مجھ سے فرمایا: یوں نہ کہو"اللہ عَزَّ وَجَلَّ کی قسم وہ جہاں بھی ہے" کیونکہ وہ (اپنی شان کے لائق) ہر جگہ موجود ہے (یعنی اپنے علم سے ہر جگہ کو محیط ہے)۔
بہارِ شریعت، جسے اہلِ سنت کا انسائیکلوپیڈیا کہا جاتا ہے، میں یہ دو عقائد درج ہیں جسے یہاں من و عن نقل کیا جارہا ہے:
عقیدہ (۱۲): وہ ہر ممکن پر قادر ہے، کوئی ممکن اُس کی قدرت سے باہر نہیں۔
عقیدہ (۲۵): اﷲ تعالیٰ جہت ومکا ن و زمان و حرکت و سکون و شکل و صورت و جمیع حوادث سے پاک ہے۔
جزو میں تُو ہے، کُل میں تو
رنگ و بوئے گُل میں تو
افواہِ بلبل میں تو
نغماتِ قُلقل میں تو
اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو اللہ ھو
اب اگر یہ نہ کہیں کہ وہ ہر جگہ موجود ہے تو کیا یہ کہیں کہ وہ کسی جگہ موجود نہیں؟ بیشک اللہ رب العزت اپنے علم، اپنے ارادے اور اپنے سمع و بصر سے ہر جگہ موجود ہے۔ اللہ کو قریب جاننا ایمان ہے اور اسی کا نبی ﷺ کو حکم ہوا ہے
{ وَ إِذَا سَأَلَكَ عِبَادِي عَنِّي فَإِنِّي قَرِيبٌ أُجِيبُ دَعْوَةَ الدَّاعِ إِذَا دَعَانِ فَلْيَسْتَجِيبُوا لِي وَ لْيُؤْمِنُوا بِي لَعَلَّهُمْ يَرْشُدُونَ } [البقرة: 186].
ترجمہ: اور اے محبوب جب تم سے میرے بندے مجھے پوچھیں تو میں نزدیک ہوں دعا قبول کرتا ہوں پکارنے والے کی جب مجھے پکارے تو انہیں چاہئے میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں کہ کہیں راہ پائیں۔
اور وہ خود ارشاد فرماتا ہے:
{ وَ لَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنْسَانَ وَ نَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَ نَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ } [ق: 16].
ترجمہ: اور بیشک ہم نے آدمی کو پیدا کیا اور ہم جانتے ہیں جو وسوسہ اس کا نفس ڈالتا ہے اور ہم دل کی رگ سے بھی اس سے زیادہ نزدیک ہیں
میرا خیال ہے کہ آپ کی تشفی ہو گئی ہوگی کہ ہمیں تو یہی حکم ہے کہ اسے اپنی رگِ جان سے بھی زیادہ قریب سمجھیں۔ اب آپ اس کیلئے جو بھی مناسب کلمات سمجھیں، کہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ وہ جسمانیت سے پاک ہے اور پھر بھی ہم سے قریب ہے۔
اللہ ہم سے قریب، اس کی فتح ہم سے قریب، اس کی رحمت ہم سے قریب،
{ ۔۔۔ يَقُولَ الرَّسُولُ وَ الَّذِينَ آمَنُوا مَعَهُ مَتَى نَصْرُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ نَصْرَ اللَّهِ قَرِيبٌ } [البقرة: 214].
{ وَ أُخْرَى تُحِبُّونَهَا نَصْرٌ مِنَ اللَّهِ وَ فَتْحٌ قَرِيبٌ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِينَ } [الصف: 13].
{ ۔۔۔ إِنَّ رَحْمَةَ اللَّهِ قَرِيبٌ مِنَ الْمُحْسِنِينَ } [الأعراف: 56].
{ ۔۔۔ إِنَّ رَبِّي قَرِيبٌ مُجِيبٌ } [هود: 61].
{ قُلْ إِنْ ضَلَلْتُ فَإِنَّمَا أَضِلُّ عَلَى نَفْسِي وَ إِنِ اهْتَدَيْتُ فَبِمَا يُوحِي إِلَيَّ رَبِّي إِنَّهُ سَمِيعٌ قَرِيبٌ } [سبأ: 50].
اور انکار کرنے والے کافروں سے اس کا عذاب قریب
{ وَ يَا قَوْمِ هَذِهِ نَاقَةُ اللَّهِ لَكُمْ آيَةً فَذَرُوهَا تَأْكُلْ فِي أَرْضِ اللَّهِ وَ لَا تَمَسُّوهَا بِسُوءٍ فَيَأْخُذَكُمْ عَذَابٌ قَرِيبٌ } [هود: 64].
جو اتنا قریب ہو، اسے موجود نہ کہیں تو کیا کہیں؟ بس یہ اعتقاد ضرور ہو کہ وہ کسی مکان میں نہیں سما سکتا اور یہ کہ وہ جسم اور جسمانیت سے پاک ہے۔